حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ ہندوستان کی مسجد کالا امام باڑہ پیر بخارہ میں مولانا سید محمد ضیغم عابدی مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے ایک مجلسِ ترحیم منعقد ہوئی، جسے حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضا حیدر زیدی صاحب قبلہ پرنسپل حوزہ علمیہ حضرت غفرانمآب لکھنؤ نے خطاب کیا اور خطبۂ فدکیہ پر سیر حاصل گفتگو کی۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے کلام "اے لوگو! بے شک میں فاطمہ ہوں۔" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے فرمایا: سرزمین فدک خیبر کے نزدیک ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر جنگ کئے حاصل کیا تھا اور آپ نے حکم خدا سے اسے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو عطا کیا تھا۔ فدک میراث نہیں تھا، بلکہ ہبہ تھا۔ حضور کی زندگی میں ہی یہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ملکیت تھا، لیکن اسے بعد میں غصب کر لیا گیا اور میراث کے طور پر پیش کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو پتہ چلا کہ باغ فدک کو غصب کر لیا گیا ہے تو آپ اپنے حق کے لئے مسجد تشریف لے گئیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا سیرتِ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے خطبۂ فدک کے ابتدائی فقرہ "میں خدا کی نعمتوں پر اس کی حمد کرتی ہوں" کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے بہت سی نعمتیں دی ہیں، لیکن ان میں سب سے بڑی نعمت، نعمت ولایت امیر المؤمنین علیہ السّلام، یعنی غدیر کی نعمت ہے۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے خطبۂ فدک کے فقرہ "میں اس (اللہ) کا شکر ادا کرتی ہوں جو اس نے الہام فرمایا۔" کو بیان کرتے ہوئے وحی اور الہام میں فرق بیان کیا۔ وحی یعنی جو پیغام اللہ، ملائکہ یا فرشتوں کے ذریعے نازل کرے، جبکہ الہام دل میں کسی بات کا اتر آنا ہے۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے خطبۂ فدک کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: حضرت زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ بنی ہاشم اپنے بچوں کو خطبۂ فدک سکھاتے اور یاد کراتے تھے، لہٰذا ہمیں بھی اس پر توجہ دینی چاہیے، اہل علم و نظر نے اس خطبہ کو مادر نہج البلاغہ بتایا ہے۔